بسم اللہ الرحمن الرحیم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
محض کتب سے علم دین حاصل کرنا
فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح العثیمین "
ترجمہ
طارق علی بروہی
سوال: کیا علماء کے بجائے صرف کتب سے علم دین حاصل کرنا جائز ہے خصوصاً جبکہ علماء کی قلت کے باعث ان کے ہاتھوں علم حاصل کرنا دشوار ہو۔ اور آپ کی کسی قائل کے اس قول کے بارے میں کیا رائے ہے: "من کان شیخہ کتابہ فخطؤہ اکثر من صوابہ" (جس کا شیخ اس کی کتاب ہو تو اس کی غلطیاں اس کے صواب (صحیح باتوں) سے زیادہ ہوتی ہیں)؟
جواب: بلاشبہ علم تو علماء کرام کے پاس سے اور کتب سے ہی حاصل کیا جاتا ہے۔ کیونکہ ظاہر ہے کسی عالم کی کتاب خود اسی عالم کے ہی قائم مقام ہے۔ گویا کہ وہ اپنی کتاب کے ذریعہ سے آپ سے بات کررہا ہوتا ہے۔اگر علماء سے براہ راست علم حاصل کرنے میں عذر درپیش ہوں تو کتب سے علم حاصل کرلینا چاہیے۔
لیکن علماء کرام سے علم حاصل کرنا کتب کے ذریعہ علم حاصل کرنے کی بنسبت اقرب ہوتا ہے۔ کیونکہ جو کتب کے ذریعہ حاصل کررہا ہوتا ہے اسے زیادہ مشقت برداشت کرنی پڑتی ہے۔ اور بہت عظیم جہد ومحنت درکار ہوتی ہے۔اور اس محنت کے باوجود بھی اس پر بعض امور مخفی رہ سکتے ہیں جیسے وہ شرعی قواعد وضوابط جو کہ اہل علم وضع کرتے ہیں۔ لازم ہے کہ بقدر امکان کتب کے ساتھ ساتھ اس کا مرجع اہل علم میں سے بھی ہوں۔
البتہ جو کہتا ہے کہ: "من کان دلیلہ کتاب فخطؤہ اکثر من صوابہ" (جس کی دلیل (علماء کے بجائے محض) اس کی کتاب ہو تو اس کی غلطیاں اس کے صواب سے زیادہ ہوتی ہیں) تو یہ نہ مطلق طور پر صحیح ہے اور نہ ہی مطلق طور پر فاسد۔
اگر انسان ہر ملنے والی کتاب سے علم حاصل کرتا ہے تو بلاشبہ اس کی غلطیاں بہت ہوں گی۔لیکن اگر کوئی کتب سے تعلیم حاصل کرنے کے سلسلے میں ثقاہت، امانت وعلم میں معروف علماء کی کتب پر اعتماد کرتا ہے ، تو ایسے کی غلطیاں زیادہ نہیں ہوتی، بلکہ وہ اکثر باتوں میں صحیح ہوتا ہے۔
(الصحوۃ الاسلامیۃ: ضوابط وتوجیھات سوال: 86، ص 150-151)
--
اہم تنبیہ:
یہ ای میل پی ڈی ایف کے بجائے یونی کوڈز میں آپ کی سہولت اور کہیں نقل کرنے کی آسانی کے پیش نظر کیے جاتے ہیں۔ لہذا انہیں امانتداری سے بناکسی ترمیم کے محض دعوتی نقطۂ نظر سے نقل کرنے کی اجازت ہے۔ اس میں بلااجازت کسی بھی قسم کا ردوبدل جائز نہیں۔ اور اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو اس کے ہم ذمہ دار نہیں۔
جزاکم اللہ خیرا